فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس شہرکے مقامی عرب اور فلسطینی تاجروں نے شکایت کی ہے کہ جولائی اور اگست کے دوران اسرائیلی فوج کی غزہ کی پٹی پرخونی یلغار کے نتیجے میں سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے جس کے نتیجے میں بیت المقدس میں کاروباری سرگرمیوں پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
مرکزاطلاعاتف فلسطین کے مطابق بیت المقدس کے تاجروں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے دور رس اور گہرے منفی اثرات نے بیت المقدس کی تجارتی اور کاورباری زندگی کو تباہی سے دوچار کیا ہے، کیونکہ غیرملکی فضائی کمپنیوں کی پراوزں کے معطل ہونے سے سیاحت متاثر ہوئی اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی تجارت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے مقبوضہ بیت المقدس کے قدیم شہر بالخصوص مسجد اقصیٰ اور کنیسہ القیامہ کے گردو پیش بازاروں کا دورہ کیا تو بازاروں کو گاہکوں سے مکمل طور پر خالی پایا۔
ایک مقامی مسلمان کاروباری شخصیت محمد الشقیرات نےبتایا کہ "بیت المقدس میں چمڑے کا کاروبار مقامی سیاحت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ الکنیسہ چرچ کی زیارت کے لیے آنے والیے بین الاقوامی سیاح بالخصوص مسیحی برادری کے لوگ چمڑے سی بنی اشیا کی نہایت شوق کے ساتھ خریداری کرتے ہیں لیکن جب سےاسرائیل نے غزہ کی پٹی پرحملہ کیا ہے اس کے بعد سے بیت المقدس کے قدیم علاقوں میں موجود بازار ویران ہوگئے ہیں۔ سیاحت کا شعبہ ٹھپ ہونے کے بعد کاورباری
سرگرمیاں ماندھ پڑچکی ہیں۔
شقیرات کا کہنا تھا کہ پچھلے چند برسوں کےدوران بیت المقدس کے قدیمی علاقوں میںموجود عرب شہریوں کے کاروبار میں کافی حد تک بہتری آئی تھی اور ہرآنے والے سال میں لوگ اپنے کاروبار کو پھلتا پھولتا دیکھ رہے تھے، لیکن اسرائیلی حکومت کی ظالمانہ اور انتقامی پالیسیوں کے باعث تاجر تنگ آ گئے ہیں۔ کاروبار پہلے ہی سے متاثر ہے اور رہی سہی کسر اسرائیلی حکومت کے کھال اتار دینے والے ٹیکسوں اور بجلی کی لوڈشیدنگ نے نکال دی ہے۔ ٹیکسوں کے بھاری بوجھ ڈالنے کے بعد بازار میں اشیاء بھی کئی گنا مہنگی ہو چکی اور مقامی گاہک انہیں خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے ہیں۔
ایک دوسرے مقامی تاجر عدنان الدقاق نے بتایا کہ بیت المقدس تین آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے تقدس کا درجہ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر سے مسلمان، یہودی اور عیسائی سیاحت کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔ یہاں پر چمڑے کی صنعت عالمی سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے لیکن موجودہ سیاسی بحران، غزہ کی پٹی پراسرائیلی فوج کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی ہوائی اڈوں پر غیرملکیوں کی آمدو رفت کا سلسلہ منطقع ہونے کے بعد کاروباری نظام زندگی تباہی سےدوچار ہو چکا ہے اور کاروباری حلقے سخت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں جنگوں کے دوران بھی بیت المقدس کی تجارت اور کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں لیکن اب کی بار تو اس کی انتہا ہوگئی ہے۔